1857 کی جنگ أزادی کے بعد انگریزوں نے مسلمانوں کو باغی قوم قرار دیا اور ان کی عوامی اجتماع کی راہ بند کر رکھی تھی وہ مسلمانون کی سیاسی تنظیم کو ہرگز گوارا نہیں کرتے تھے۔ مسلمان رہنماوُں میں سر سید احمد خان و ہمنوا نے تعلیمی ادارے اور تعلیمی کانفرنس کے ذریعے غیر سیاسی انداز پر مسلمانوں کی تنظیم کا کام شروع کیا تھا اور تعلیمی کانفرنس ہی مسلم کو زندگی کے مختلف شعبوں کی رفتار سے أگاہ رکھتی تھی۔۱۹۰۶میں جب مسلمانوں بلکہ ایجوکیشنل کانفرنس نے ہی مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی تو انگریز اس سے بےحد ناراض ہوئے۔ مسلم لیگ کے رہنماوُں کو متنبہ کیا گیا کہ مسلمانون کا بحثیت مسلمان اپنی الگ تنظیم بنانا اہل برطانیہ کو پسند نہیں اور اگر حکومت ہند نے یہ معسوس کیا کے تنظیم نے کوئی قدم ہندو یا کسی اور کے خلاف اٹھایا ہے تو تاج برطانیہ مسلم پر سخت گرفت کرے گی۔ انگریزوں کو اندیشہ تھا کہ اگر مسلم اگر منظم ہو گئے تو پھر ۱۸۵۷ جیسی خوفناک بغاوت کی صورت پیدا ہو جائے گی۔۔ اس لیے انگریز سیاسدان چاہتے تھے کہ بر عظیم میں مسلم کو ایسے مواقع نہ ملیں جن کے بدولت وہ اپنے علاوہ غیر مسلمانوں کو بھی برٹش راج کے خلاف بھڑکائیں یا حکومت برطانیہ جس انداز میں اس برعظیم میں اپنی من مانی کر رہی ہے اس میں کوئی خلل ڈالیں۔
۱۹۳۵ میں گورنمنٹ أف انڈیا ایکٹ کا نفاد دراصل اسی برطانوی اسکیم کے مطابق وہ أخری قدم تھا جسکے تحت سارے ہندوستان پر اکثریت کی حکومت کا اصول نافد کر دیا گیاتھا کیونکہ انگریز جانتا تھا کہ ہندو تو اس کے دام میں ہی رہے گا مگر مسلمان کی غیرت یہ کبھی گوارہ نہیں کرے گی۔ اس لیے انگریز چاہتا تھا کہ مسلمان پستی اور غلامی میں رہیں۔
۱۹۳۶ سے جناح صاحب نے مسلمانوں کی مذید تنظیم کے ذریعے اسی برطانوی شکنجے سے نکلنے کی راہ ہموار کرنے شروع کر دی تھی جس کے لیے ہتھیاروں سے مسلح نہ سہی مگر زھن و فکر سے پوری طرح مسلح کرنا ضروری تھا جس کے بغیر صورت نجات ممکن نہیں تھی۔ لہندا فیصلہ کیا گیا کہ پوری قوت سے قوم کو منظم کیا جائے اگر وہ زھنی طور پر منظم نہ ہوئے تو انتخابات کے میدان میں ہار جائیں گے اور پمیشہ کےلیئے ہار جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ بر عظیم میں مجموعی طور پر جس قوم کی تعداد زیادہ ہو گی وہ مسلط ہو جائے گی۔
جناح صاحب اور علامہ اقبال کو ہر لعمہ اپنی قوم کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ جناح صاحب نےمسلم کی اس وقت کی حالت کے بارے میں کہا تھا ۔۔۔۔
عددی اعتبار سے اقلیت ہیں اور کمزور ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے پست ہین اور معاشی اعتبار سے کچھ بھی نہیں۔
اسی کمزور قوم کو اس عظیم انسان نے ایسے تحریقےسے منظم کیا اتنے کمال فہم و فراست اور بے جگری اور قوت سے انگریزوں اور ہندوُں کا مقابلہ ان کے اپنے قانوں کے اندر رہے کر کیا کہ خود انگیز سر پکڑ کر ریے گئے اور جب پاکستان وجود میں أگیاتھا اور جناح صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے تو انگریز بلبلا اٹھے تھے کہ اگرہمیں معلو م ہوتا کہ جناح موت سے بھی لڑ رہے ہیں تو ہم مسلمانوں کو کبھی بھی أزادی نہ دہتے معمالہ ٹالتے اور جناح کی موت کا انتظار کرتے۔
دریاوُن کے دل جس دھل جائیں وہ طوفان
اللہ اس مرد مجاہد کو کروڑ کروڑ مغفرت عطا فرماے جس نے ہمیں غلامی سے أزاد کرایا۔
۱۹۳۶ سے جناح صاحب نے مسلمانوں کی مذید تنظیم کے ذریعے اسی برطانوی شکنجے سے نکلنے کی راہ ہموار کرنے شروع کر دی تھی جس کے لیے ہتھیاروں سے مسلح نہ سہی مگر زھن و فکر سے پوری طرح مسلح کرنا ضروری تھا جس کے بغیر صورت نجات ممکن نہیں تھی۔ لہندا فیصلہ کیا گیا کہ پوری قوت سے قوم کو منظم کیا جائے اگر وہ زھنی طور پر منظم نہ ہوئے تو انتخابات کے میدان میں ہار جائیں گے اور پمیشہ کےلیئے ہار جائیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ بر عظیم میں مجموعی طور پر جس قوم کی تعداد زیادہ ہو گی وہ مسلط ہو جائے گی۔
جناح صاحب اور علامہ اقبال کو ہر لعمہ اپنی قوم کی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ جناح صاحب نےمسلم کی اس وقت کی حالت کے بارے میں کہا تھا ۔۔۔۔
عددی اعتبار سے اقلیت ہیں اور کمزور ہیں۔ تعلیمی اعتبار سے پست ہین اور معاشی اعتبار سے کچھ بھی نہیں۔
اسی کمزور قوم کو اس عظیم انسان نے ایسے تحریقےسے منظم کیا اتنے کمال فہم و فراست اور بے جگری اور قوت سے انگریزوں اور ہندوُں کا مقابلہ ان کے اپنے قانوں کے اندر رہے کر کیا کہ خود انگیز سر پکڑ کر ریے گئے اور جب پاکستان وجود میں أگیاتھا اور جناح صاحب دنیا سے رخصت ہو چکے تھے تو انگریز بلبلا اٹھے تھے کہ اگرہمیں معلو م ہوتا کہ جناح موت سے بھی لڑ رہے ہیں تو ہم مسلمانوں کو کبھی بھی أزادی نہ دہتے معمالہ ٹالتے اور جناح کی موت کا انتظار کرتے۔
دریاوُن کے دل جس دھل جائیں وہ طوفان
اللہ اس مرد مجاہد کو کروڑ کروڑ مغفرت عطا فرماے جس نے ہمیں غلامی سے أزاد کرایا۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔