ہوس نے ٹکرے ٹکرے کر دیا ہے نوعِ انسان کو۔

Wednesday, 11 April 20120 تبصرے

جب ہم مسلمانوں کی موجودہ صورت حال کا مشاہدہ کرتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ علامہ اقبال کی روح صخت مضطرب ہوگی۔صد افسوس کہ آج مسلم میں کوئی اقبال نہیں جو امت کی ان ابلیسی قوتوں کے خلاف رہنمائی کرے جو امت کو تہس نہس کرنے پر تلی ہیں۔ لیکن اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ امت مسلمہ خود بھی اپنی اندرونی عداوتوں کی نتیجے سے بکھیری جا سکتی ہے۔درحقیقت یہی کچھ آج کی مسلم دنیا میں ہو رہا ہے۔شاید ہی کوئی اور قوم ہو جو مسلمانوں کی طرح تقسیم ہو چکی ہے۔اس تقسیم کی بنیادیں مذہب، سیاست،لسانیت،علاقائیت، نسل،ذبان اور ذات پات پر مشتمل ہیں۔یہ تقسیم مذید اور تقسیموں میں بدل دی گئی ہے اور اسکے علاوہ زر،سوشل اسٹیٹس، مقبولیت اور سرمایہ بھی مسلمانوں کو سماجی طور ہر ایک دوسرے سے الگ کر رہا ہے۔
بنیادی طور پر مسلمان سنیُ اور شیعہ میں تقسیم ہیں۔ سنیُ مزید برآں حنفی،مالِکی،شافعی اور حنبلی فرقوں میں بٹ گئے ہیں اور شیعہ قسانیہ، امامیہ،اسماعیلی وغیرہ میں تقسیم ہوئے۔اس پر ستم یہ کہ سنیُ اہل حدیث اور اہل فقہیہ اور یہی اہل فقہیہ برصغیر میں دیوبندی اور بریلوی مکتبوں میں منتشر ہو گئے۔دنیائے اسلام میں ہر جگہ فرقے پہ فرقے پائے جاتے ہیں۔کیا یہ تمام فرقےا ور انکا آپس میں ہم آہنگی کا فقدانکی کوئی خاص مکتب فکر کی نشاندی ہے جیسے کہ اسکے دعوادار تسلیم کرانا چاہتے ہیں؟ ہم اسے قبول کریں یا نہ کریں یہ فرقے اور باہمی اختلاف وحدت مسلمہ کے راستے میں مادی، جذباتی اور نفسیاتی رکاوٹیں کھڑی کر چکے ہیں۔ اسی فرقہ بندی اور اختلافات کو علامہ اقبال نے انسان میں تعصب کا سبب ٹھہرایا۔؎
شجر ہے فرقہ آرائی،تعصب ہے ثمر اس کا
یہ وہ پھل ہے جو جنت سے نکلواتا ہے آدم کو

ہم مسلمان جو مغرب میں رہتے ہیں یہاں ایک دوسرے کے مذہبی اختلاف کے باوجود مل جل کر انسان دوستی کو فروغ دیتے ہیں مگر ہمارے وطن میں ہمارے بہن بھائی اتنے خوش قسمت نہیں۔وہاں یہ اختلافات کبھی کبھی لڑائی اور قتل تک کا سبب بن جاتےہیں۔ایسا کیوں ہے؟حالنکہ قران پاک اور سنت نبویﷺ نے ہمیں اسکے بارے میں خبردار کیا ہے۔ کیا یہ اس تعصب کا نتیجہ ہے جو ہماری فرقہ بندی اور اختلاف کی وجہ سے پیدا ہوا جیسا علامہ اقبال نے فرمایا ہے؟کیا ہم دنیا میں ان فرقوں اورایک دوسرے پر عدم اعتبار کے باوجود ترقی کر سکتے ہیں؟ علامہ اقبال اس کے قائل نہیں! فرماتے ہیں۔ ؎
فرقہ بندی ہےکہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
تو سید بھی ہو ،تو مرزا بھی ہو،افغان بھی ہو
تو سبھی کچھ ہو، بتاوُ کہ مسلمان بھی ہو؟
یہاں علامہ نے سید ذات پات کے لیے استمال کیا ہے کیونکہ یہ ذات مسلمانوں میں سب سے ممتاز ہے اور اسے ہندوں کی سب سے اونچی ذات برہمن کی طرح بنا دیا گیا تھا۔ مرزا لفظ دولت مند اشرفہ اور افغان ذبان نسل اور علاقائیت کی تشریع کے لیے رکھا گیا ہے۔ یہ سب عادتیں قران کی تعلیم کی منافی ہیں اور جب علامہ پوچھتے ہیں کہ بتاوُ مسلمان بھی ہو۔ تو انکا مطلب یہ ہے کہ جو مسلمان اپنی ذات۔اعزاز یا نام کی وجہ سے دوسرے مسلمانوں سے اپنے آپ کو بہتر سمجھتے ہیں اور تقویٰ کی وجہ سے نہیں انیں اپنے آپ کو سچے مسلمان کہلوانے کا حق نہیں!اور یہ فرقہ بندیاں اور اختلافات تمہیں ترقی نہیں دیں گے۔
قران کریم راوی ہے کہ جو دین میں اختلاف ڈالے وہ مشرکین میں سے ہے( سورۃ ۳۰ آیات ۳۲اور سورۃ ۶ آیات ۱۵۹)
حدیث مبارکﷺ میں ہے کہ جس نے امت سے ایک قدم بھی باہر نکالا وہ امت کی زمہ داری سے فارغ ہوا بےشک وہ نماز اور روزہ کا پابند ہی کیوں نہ ہو۔
اسی وجہ سے قران کریم مسلمانوں کو تاکید کرتا ہے کہ اے ایمان والو! اللہ کی رسی( قران حکیم) کو مضبوطی سی پکڑی رکھو اور امت میں تفریق نہ ڈالو( سورۃ آیات ۱۰۳)۔
آپ دنیا کے نقشے پر نظر ڈالیں۔مسلمان کی تعداد دس کھرب کے قریب ہے۔ مسلمان ممالک قدرتی وصائل سے مالا مال ہیں اور انکی سر زمینیں سب سے زٰیادہ زر خیز ہیں مگر پھر بھی مسلمان دنیا بھر میں سب سے زیادہ کمزوراور محتاج قوم ہیں۔
 
مذہبی پلیٹ فارم پر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دیا بھر میں مسجدوں کی تعداد بڑتی جا رہی ہے اور نمازیوں کی بھی۔حج پر جانے والے اتنے ہو گئے کہ اس تعداد کو قابو کرنے کے لیے حکام بنانے پڑے۔مسلم تنظیموں بھی ایک رفتار سے اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔ اب جب کسی تنظیم میں اندرونی اختلاف ہوتا ہے تو مخالف اپنی الگ تنظیم اور مسجد بنا لیتے ہیں! مسلمانوں کی اس عادات کا علامہ اقبال اس طرح فرماتےہیں۔۔
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں نمازی نہ بن سکا
یعنی کہ ایمان کے جوش نے مسجد تو بنا دی ہے مگر بنانے والوں کا دل گناہ سے پاک اور سجدہ ریز نہیں ہوا۔
اب ہم ان شعر کی حقیقت کی طرف آتے ہیں۔بے شمار واعظ اور تقریریں جو مسلمانوں کو ایک امت بننے کی تاکید کرتی رہی ہیں کوئی کامیابی حاصل نہیں کر سکیں۔یہ کیوں ہے؟ علامہ قبال فر ماتے ہیں کہ بیماری کی جڑ تلاش کرو اور اسے پکڑو۔ہمیں اپنے دل کے خانوں میں اس بیماری کی جڑ تلاش کرنی ہے۔ظاہری طور پر ایک تناور درخت جسکے پتے،ٹہنیاں،اور دھڑ آپکو بہت دیدہ زیب لگیں گے مگر اسکی وہ اندرونی جڑین جو زمین دوز ہیں وہ خراب اور مردہ ہوں تو یہ درخت کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ لگتا ہو اس نے یکے بعد دیگر ختم ہو جانا ہے۔ درحقیقت ہوا کا ایک تیز جھونکا ہی اس کو فنا کرنے کے لیے کافی ہوگا۔آپ پتوں اور ٹہنیوں کو کتنی بھی غذا دیں یہ درخت کو گرنے سے نہیں بچا سکتیں۔ جب ہمیں ان جڑون کی بیماری کا پتہ چل جاتا ہے تو جہاں سے رازحاصل ہو وہیں سے اسکا علاج بھی معلوم ہو جائے گا۔
مفکر اسلام جناب علامہ محمد اقبال رحمت اللہ کے مطابق مسلمانوں کیا تمام انسانیت کی اس بیماری کا علاج کتاب اللہ قران مجید میں ہے۔۔¨
وہی دیرینہ بیماری ،وہی نامحکمی دل کی
علاج اسی کا وہی آبِ نشاط انگیز ہے ساقی
یعنی کے وہی پرانی دل کی نفسیاتی بیماری جس کا علاج وہی آبِ نشاط( قران حکیم) ہے یا رب۔۔۔
قران پاک فرماتا ہے۔۔۔۔اے انسان! تمہارے لیے تمہارے رب کی جانب سے کامل ہدایت پہنچی ہے جو تمہارے دل کی بیماریوں کا علاج بھی ہے۔۔( سورۃ۱۰ آیات ۵۷)۔
سو قران کریم اورعلامہ اقبال کے مطابق ہماری سب موجودہ مشکلات کا سبب ہمار ےدلوںمیں ہے اور وہیں سے ان کا علاج شروح کرنا چایئے۔ بطور علامہ۔۔۔
زبان سے کہہ بھی دیا لاالہٰ الا تو کیا حاصل۔۔۔دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
یعنی کہ ایمان کا تمہارے دل کی گہرایوں میں اترنا ضروری ہے۔صرف کہنے سے کچھ نہیں بنتا۔۔قران پاک سورۃ ۴۹ آیات ۱۴
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 Secret Wisdom دانائے راز | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی