سحر ہونے تک ۔۔ از ڈاکٹر عبد القدیر خان

Thursday, 3 May 20120 تبصرے

ڈاکٹر عبدالقدیرخان

شاعر مشرق، مفکّر پاکستان علّامہ اقبال صرف شاعر اور فلسفی ہی نہ تھے قوم و مملکت کے ہادی اور رہبر کامل بھی تھے۔ صوفی شعراء کی طرح انھوں نے بھی پند و نصائح کو خوبصورت اشعار میں ڈھال کر دل آویز و دلکش بنا دیا ہے۔ ان کے اشعار میں صحیح کردار کا خاکہ، طرز زندگی کی تعلیم ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ہندوپاکستان میں لاتعداد اعلیٰ شعراء پیدا ہوئے ہیں مگر کوئی بھی علّا مہ اقبال کے رُتبہ کو نہ پہنچ سکا اور نہ ہی اس کا کلام علّامہ اقبال کی طرح زبان زد عام و زندہ جاوید ہُوا، یعنی

یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مُدّعی کے واسطے دار و رَسن کہاں

آپ کا ایک شعر ہے:

آئین جوانمردی ، حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

اس مختصر مگر اہم شعر میں آپ نے جوانمرد کے کردار کے لئے حق گوئی وبے باکی کو آئین قرار دیا ہے جو انتہائی لازم امر ہے۔ اسی طرح ایسے کردار والے انسان کو اللہ کے شیر کا لقب دیا ہے اور اس کے برخلاف عمل کرنے والے کو روباہی یعنی لومڑی پن کہا ہے۔ کہاں شیر جیسا دلیر جانور اور کہاں بزدل، مکّار لومڑی۔ مکمل تضاد۔ جو انسان حق گوئی یعنی سچ بات کہے اور نڈر ہو وہی بغیر خوف و خطر سچ بول سکتا ہے اور جو ایسا نہیں کر سکتا وہ لومڑی کی طرح مکّاری و جھوٹ سے کام لیتا ہے۔
ہمارے ملک میں کیا بلکہ دنیا میں بھی سچ بات کہنے والے نڈر شخص یعنی علّامہ اقبال کے اللہ کے شیرکو عموماً طرح طرح کے مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور علّامہ اقبال کو اس حقیقت سے پوری طرح آگاہی تھی اور اس کو مدِّ نظر رکھ کر ہی آپ نے کہا تھا۔

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی ناخوش
میں زہر ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

کیونکہ آپ نے مہلک زہر کو کبھی بھی لذیذ قند نہیں کہا اس وجہ سے اقربابھی ناراض ہوئے اور غیر لوگ بھی اس حق گوئی سے خوش نہیں ہوئے یعنی اپنے اور پرائے سب ہی مکاری کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ سچ بات ان کو کڑوی لگتی ہے اور وہ اس سے ناراض و ناخوش ہو جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہماری قوم اور معاشرہ میں یہ عیوب اس بری طرح سرایت کر گئے ہیں کہ لوگ سچے یا راست گو انسان سے گبھراتے ہیں اور اس کے پاس بھی نہیں بھٹکتے اور جھوٹے، عیار اور خوشامدی لوگوں کی جھوٹی باتوں اور چاپلوسی سے خوش ہو کر ہمہ وقت ان کے دائرہ میں گھرے رہتے ہیں۔ یہ خوشامدی اور مفاد پرست طبقہ با اقتدار ہستیوں کو غلط مشورہ دے کر اپنا فائدہ اور ملک و قوم کا نقصان کراتا ہے، مقتدر اشخاص ان کے مشوروں پر عمل کرکے ملک و قوم کی محبت و ہمدردی اور ہر دلعزیزی سے محروم ہو جاتے ہیں۔ ایسا ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا ہے اور ہوتا رہے گا کیونکہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوشامد کو پسند کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ وہ گنہگاروں کے اعمال ان کو اپنی آنکھوں میں اچھے دکھاتا ہے۔ ہمارے ملک میں اصحاب اقتدار ایک کے بعد ایک ایسی غلطیوں کے مرتکب ہوئے، حکومتیں گئیں اور عوام کی محبت اور عزّت بھی لیکن آنے والے نے پچھلے کی غلطیوں اور انجام سے کچھ نہیں سیکھا اور قانونِ قدرت پے درپے ان کو سزائیں دیتا رہا اور دیتا رہے گا۔

بشکریہ " سحر ہونے تک ۔۔ از ڈاکٹر عبد القدیر خان
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 Secret Wisdom دانائے راز | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی