جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئي فن' تم ہو

Wednesday 11 April 20120 تبصرے

جن کو آتا نہيں دنيا ميں کوئي فن' تم ہو
نہيں جس قوم کو پروائے نشيمن، تم ہو
بجلياں جس ميں ہوں آسودہ' وہ خرمن تم ہو
بيچ کھاتے ہيں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو
ہو نکو نام جو قبروں کي تجارت کرکے
کيا نہ بيچو گے جو مل جائيں صنم پتھر کے

یہ قطعہ علامہ اقبال کی نظم جواب شکوہ کا ہے، اس میں علامہ صاحب مسلمانوں کو ان کا حال بتا رہے ہیں، اور آج اگر ہم اپنے ارد گرد دیکھیں تو یہ اشعار ہم پر پورے اترتے ہیں، آج ہم کسی کام کے نہیں ہیں، ہمیں کوئی کام نہیں کرتا آتا، ہم صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور منتظر ہیں کہ کوئی آئے اور ہمارے کام کر دے، ہمیں آج کوئی فن نہیں آتا، وہ فن جو ہمارے آبائو اجداد نے ایجاد کئے تھے، آج وہ ہمیں آتے بھی نہیں ہیں اور دوسرے لوگ ان میں مہارت رکھتے ہیں، آج ہمارا وہ نشیمن ہے جس میں بجلیاں آسودہ ہو چکی ہیں اور ہمارے اندر نہ وہ جوش ہے اور نہ وہ ولولہ ہے کہ ہم کچھ کر سکیں، ہم نے دوسرے سے بھیک مانگ کر جینا سیکھ لیا ہے، یہاں پر میں یہ بات ضرورت شیئر کروں گا کہ ایک وقت تھا کہ پوری دنیا میں ہم استاد کا مقام رکھتے تھے اور دوسری قومیں ہمارے آبائو اجداد سے پڑھنے کے لئے آتی تھیں اور آج وہ وقت ہے کہ ہم نہ تو خود استاد رہے اور نہ ہی ہم دوسروں سے سیکھنا چاہتے ہیں۔ ہم نے غلامی کی زندگی جینا سیکھ لی ہے آج ہمارے آبائو اجداد کے شروع کئے ہوئے علوم پر دوسری قومیں مہارت رکھتی ہے اور ہم بیٹھے صرف اسلاف کی تعریفیں کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
یہاں پر حضرت علامہ اولیاء اللہ کی زیارات کا ذکر کرتے ہیں آج ہم حضرت خواجہ معین الدین چشتی، حضرت داتا گنج بخش اور دیگر اولیاء کی درباروں پر بیٹھے ان کی قبروں کو بیچنے پر لگے ہوئے ہیں اور لیکن اس بات پر غور نہیں کرتے کہ انہوں نے کیا کام کئے، انہوں نے درس کیا دیا ہے آج ہم جاتے ہیں ان کے مزارات پر حاضری دیتے ہیں اور بس اور ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں ان سے محبت ہے،محبت اس چیز کا نام نہیں ہے، محبت یہ ہے کہ انہوں نے جو ہمیں درس دیا ہے اس کو یاد کریں اور اس پر عمل کریں اور انہوں نے جس اسلام کی تجوید کے لئے کام کیا اس کو تو آج ہم بھول بیٹھے ہیں، آخر میں علامہ کہتے ہیں کہ آج ہم پیسے کے لئے کچھ بھی کردیتے ہیں اور اگر ہمیں پیسے مل جائیں تو پھر ہم بتوں کی فروخت بھی شروع کردے مطلب کہ اللہ کی دی ہوئی رسی کو بھی چھوڑ دیں، اس لئے آج وقت ہے کہ ہم اس بارے میں سوچیں اور اپنا قبلہ درست کریں اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے بتائے ہوئے رستے پر چلیں اور دنیا میں بھی اپنا مقام پا لیں اور آخرت میں بھی اپنا مقام پا لیں، اگر ہم نے اس پر عمل نہ کیا تو ہم دنیا میں بھی ایسے ہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے اور آخرت میں مقام پانے کی تو پھر بات ہی نہ کریں۔۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 Secret Wisdom دانائے راز | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی