علامہ اقبال، قران کریم اور وحدت امت اسلامیہ- افتخار کھو کھر

Wednesday 11 April 20120 تبصرے

یہ ڈاکٹر منصور عالم کے انگلش مضموں ، علامہ اقبال، قران پاک اور وحدت امت اسلامیہ کے پہلے حصے کا اردو ترجمہ ہے۔باقی حصے بھی انشاءاللہ جلد پیش کییئے جائیں گے۔

علامہ اقبال، قران کریم اور وحدت امت اسلامیہ

مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب مل کر ایک مشترک مقصد کی جانب جدوجہد کریں جو قران کریم نے مقرر کیا اور رسول مقبولﷺ نے آپنی سنت میں دیکھایا ہے۔ دنیا بھر کے مسلمان مرد اور عورتیں آپس میں بھائی بہنیں ہیں اور یہ رشتہ وحدت توحید اور وحدت انسانیت سے استوار ہے۔یہ اسلام کا بنیادی اصول ہے۔قران کریم اور سنت نبویﷺ نے مسلمانوں کی امت کو یکجا کرنا لازم قرار دیا جیسے کہ امت ایک ہی جسم ہو اور اسکے افراد اسکے عضو۔اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا بدن یہ محسوس کے۔
مگر کیا امت مسلمہ اس ہدایت پر عمل کر رہی ہے؟ دنیا بھر میں بے شمار مسلم اور انکی مختلف تنظیمیں گو کافی جدوجہد کر رہی ہیں مگر یہ پریشان کن ھقیقت ہے کہ کوئی بھی اوپر زیل مقصد میں کامیاب نہیں ہوا۔آج کے مسلمان ایک دوسرے کے معاون ہونے کے بجائے ایک دوسرے کے مخالف ہو گئے ہیں۔دنیا بھر میں مسلمانوں کو قتل اور تباہ کیا جارہا ہے ۔ چہچچین،فلسطین اور کشمیر چند میں سے ایک کی مثال پیش ہے، مگر ہم دیگر مسلمان کو شاید ان کے مشکالات اور دکھ کا احساس ہی نہیں کہ اپنی اپنی مادی دنیا میں مست ہیں۔کیا وحدت امت مسلمہ ایک خواب ہے جو شرمندہُ تعبیر نہیں ہو سکتا؟ دلیلیں پیش کے جارہی ہیں کہ یہ فرسودہ خیالات کی پیداوار ہے ایک وقت مسلمان ضرور ایک جماعت ہوا کرتے تھے مگر آج کا جدید دور ایسی وحدت کے لیے بیکار ہے۔کہ یہ مسلمان کے ایمان کو تو تازہ کرتاہے مگریہ مقصد جدید تقاضوں میں حاصل نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں اس منصوبے یعنی کہ وحدت امت پر اکثر جنوں کے حد تک بحث کرتے رہے ہیں اور کر رہے ہیں۔
اب ہم اس بنیادی نکتے پر نظر ڈالتے ہیں جو اس تحریر کا مقصد ہے۔ کیا وحدت امت مسلمہ ممکن ہے؟اور اگر ہے تو اسے کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔پہلے ہم مسلم کے موجودہ حال دیکھتے ہیں اور پھر ان کا جو حل علامہ اقبال نے تجویز کیاتھا اس سے مطالعہ کریں گے۔
جس طرح علامہ کے وقتوں میں مسلمان زبوں حالی تھا آج بھی ہے، آئے دن مسلمانوں کی تباہی و بربادی اور قتل کی خبریں ملتی ہیں گو علامہ کے وقت سے کس قدر زیادہ۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ مسلم ملک خود غیر مسلم کے اتحادی بن کرآپنی امت کے بھائیوں کی موت اور بربادی کا موجب بن رہے ہیں۔ حد یہ کہی مسلم ممالک ہی میں مسلمان فرقے ایک دوسرے کے خلاف جنگ آزما ہیں اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں منظم طور پر انیں بے آبرو، بے عزت کر کےنسلی امتیاز، ظلم اور بربریت کا شکار بنایا جاتا ہے۔ یہ سلسلے کب ختم ہونگے؟
جب یونان نے ۱۹۲۳ میں انگریز کی ایما پر ترکی پر حملہ کیا تو علامہ اقبال کا دل بہت رویا۔ وہ جانتے تھے کی ترکی پر حملہ دراصل اسلام پر حملہ ہے۔ آپ نے دنیا میں مسلمانوں کو استماری طاقتوں سے آزاد ہونے اور غلاموں کی زھنیت سے بیدار کرانے کی بھر پور کوشش کی اور مالی مفاد کو ٹھکرا کر امت کے مفاد کی طرف کمر بستہ ہونے کا پیغام دیا۔اس ضمن میں علامہ نے اپنی تاریخ ساز نظم طلوعِ اسلام لکھی اور جو منعافہ اس سے ملا وہ ترکی روانہ کر دیا۔آپ نے فرمایا۔۔؎
ہوس نے ٹکرے ٹکرے کر دیا ہے نوعِ انسان کو
اخوت کا بیاں ہو جا محبت کی زبان ہو جا
یہ ہندی یہ خراسانی یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہِ ساحل اچھل کر بیکراں ہو جا
یعنی کے ہوس نے وحدت انسانیت کو چیڑ پھاڑ کر رکھ دیا ہے، اے مسلمان تو اخوت اور محبت انسانیت کا علمبرادر بن، ومیت کو فنا کر اور اسلام کے گہرے سمندر میں چلا جا کہ اسلام ہی تیری قوم اور وطن ہے،
باقی جلد پیش کیا جائے گا۔۔۔۔۔
دوستوں کے ساتھ شئیر کریں :

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

 
Support : Creating Website | Johny Template | Mas Template
Template Created by Creating Website Published by Mas Template
جملہ حقوق © 2011 Secret Wisdom دانائے راز | تقویت یافتہ بلاگر
جی ایکس 9 اردو سانچہ | تدوین و اردو ترجمہ محمد یاسرعلی