من بتلاش تو روم یا بتلاش خود روم
عقل و دل و نظر ہمہ گمشدگان کوی تو زبور عجم
اس شعر کا سادہ اردو ترجمہ یہ ہے :
میں تیری تلاش میں میں نیکلوں یا اپنی تلاش میں جاؤں ؟کیا کروں میری عقل،دل اور نظر سب کی سب تیرے کوچے میں کھوگئے ہیں۔
اس شعر میں علامہ اقبال نے رہرو محبت کے انتہائی ذوق وشوق کی تصویر کھینچی ہے اورعاشق کا یہ پہلو نمایان کیا ہے کہ وہ اپنے محبوب کی دھن میں
اپنے آپ کو کھو دے۔
ایک طرف انسان خدا کا جویا ہے ،دوسری طرف اسے اپنی تلاش ہے ۔ اس نے
اللہ کی تلاش میں اپنی زندگی اور خودی کی تکمیل بھی کرنی ہے
شاعراستفہامیہ انداز بیان سے پوچتا ہے کہ اے خدا میں تجھے ڈھونڈوں یا کہ اپنے آپ کو؟
تیری محویت میں میرا دل ،عقل اور نظر سب کھوگئے ہیں۔ نہ تیری خبر ہے نہ اپنا ہوش ۔کہنا یہی ہے کہ راہ شوق کی محویت انتہا کو پہنچ چکی ہے اور پتہ نہیں چلتا کیا کروں۔ حالانکہ شاعرکا مقصود یہی ہے کہ یہ محویت ہی اصل رسائی ہے۔ جسے نصیب ہو وہ بڑا خوش نصیب ہے۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔